1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیایشیا

پاکستان: گوادر میں فوج پر حملے میں دو ہلاک اور متعدد زخمی

1 اپریل 2024

حکام کے مطابق انقرہ ڈیم کے علاقے میں پاکستانی فوج کی اس ٹیم پر اندھا دھند فائرنگ ہوئی، جو بارودی سرنگ ہٹانے میں مصروف تھی۔ پاکستان میں رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں اس طرح کے پر تشددواقعات میں 432 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4eIxR
پاکستانی فوج گشت کے دوران
رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے 245 واقعات پیش آئے، اس میں مجموعی طور پر 432 افراد ہلاک جبکہ 370 کے قریب زخمی ہوئےتصویر: AP

پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کے انقرہ ڈیم کے علاقے میں پاکستانی فوج کے بم ڈسپوزل اسکواڈ پر حملہ ہوا، جس میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک اور چار دیگر زخمی ہو گئے۔

چین کا پاکستان میں دو بڑے ڈیم منصوبوں پر کام روکنے کا اعلان

پولیس کے ایک بیان کے مطابق بم ناکارہ بنانے والی پاکستانی فوج کی ٹیم پر اس وقت نامعلوم افراد نے اندھا دھند فائرنگ کی، جب وہ انقرہ ڈیم کے علاقے میں بارودی سرنگیں صاف کرنے کے کام میں مصروف تھی۔ گولیاں لگنے سے دو فوجی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، جبکہ چار شدید طور پر زخمی ہو گئے۔

خیبر پختونخوا: خودکش حملے میں پانچ چینی ڈیم ورکر اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ہلاک

گوادر کے ایس ایس پی محسن زوہیب نے بتایا، ''فائرنگ کا واقعہ بندرگاہی شہر (گوادر) سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر پیش آیا، جس میں دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کے بعد لاشوں اور زخمیوں کو جی ڈی اے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے کا ہدف گوادر ہی کیوں؟

واقعے میں جاں بحق ہونے والوں کی شناخت سپاہی ظہور اور الطاف کے نام سے کی گئی ہے، جبکہ زخمیوں میں حوالدار ساجد حسین، سپاہی تجمل حسین، سپاہی ابرار احمد اور سپاہی گل حیدر شامل ہیں۔

گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملہ، دو حملہ آور ہلاک

سکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں کی تلاش کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کیا ہے۔ 

پاکستان اور مغرب کے بڑھتے تعلقات چینی مفادات کے لیے چیلنج؟

کسی بھی گروپ نے ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

گوادر میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملہ

واضح رہے کہ گزشتہ بیس مارچ کو بھی گوادر میں ایک سرکاری عمارت پر شدت پسندوں نے دھاوا بول دیا تھا، جسے سکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائی سے ناکام بنا دیا تھا۔ اس تصادم میں آٹھ مسلح دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔

تشدد کے واقعات میں اضافہ

اتوار کے روز ہی ایک پاکستانی ادارے 'سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز' (سی آر ایس ایس) نے ملک میں تشدد کے واقعات اور ہلاکتوں سے متاثر افراد کی ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے۔

بلوچستان کے ’عوام کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا‘

اس رپورٹ کے مطابق رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے 245 واقعات پیش آئے۔اس کے مطابق اس طرح کے تشدد اور تصادم کے نتیجے میں عام شہریوں، سیکورٹی اہلکاروں اور ممنوعہ تنظیم سے وابستہ افراد سمیت مجموعی طور پر  432 افراد ہلاک جبکہ 370 کے قریب زخمی ہوئے۔

گوادر میں امن و امان کی صورت حال کشیدہ، حکومت تنقید کی زد میں

اس میں بھی عام شہری اور سکیورٹی فورسز کی مجموعی ہلاکتوں کی تعداد  281 ہے۔

اس عرصے میں افغانستان کی سرحد سے ملحق صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں، سب سے زیادہ، تقریبا 92 فیصد ہلاکتیں ہوئیں۔ اس میں بھی خیبر پختونخوا میں 51 فیصد اور بلوچستان میں 41 فیصد لوگ مارے گئے۔

 اعداد و شمار اس بات کی بھی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک کے باقی علاقے نسبتاً پرامن رہے، جہاں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد محض آٹھ فیصد سے بھی کم رہی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں عسکریت پسند تنظیموں نے دہشت گردانہ حملوں میں ہونے والی مجموعی ہلاکتوں کی 20 فیصد سے بھی کم کی ذمہ داری قبول کی۔

پہلی سہ ماہی میں خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں تشدد میں حیران کن طور پر 96 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس صوبے میں سن 2023 کی آخری سہ ماہی میں ہلاکتوں کی تعداد 91 سے بڑھ کر 178 تک ہو گئی تھی۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

ملازمتوں کی امید، پاکستانی چینی زبان سیکھنے لگے