1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے قومی انتخابات میں پہلے مرحلے کی پولنگ جاری

جاوید اختر، نئی دہلی
19 اپریل 2024

بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے میں ایوان زیریں یا لوک سبھا کی مجموعی طورپر 543 نشستوں میں سے 102 کے لیے آج جمعے کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ewns
ان قومی انتخابات میں 47 کروڑ سے زیادہ خواتین بھی اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گی
ان قومی انتخابات میں 47 کروڑ سے زیادہ خواتین بھی اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گیتصویر: AFP/S. Hussain

اس مرتبہ یہ پارلیمانی انتخابات سات مرحلوں میں منعقد ہوں گے۔ اس الیکشن کو تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی جمہوری مشق کہا جا رہا ہے۔ چوالیس دنوں تک جاری رہنے والے اس جمہوری عمل میں 96 کروڑ 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان میں سے 497 ملین ووٹر مرد ہیں اور 471 ملین خواتین۔ آخری مرحلے کی ووٹنگ یکم جون کو ہو گی اور انتخابی نتائج کا اعلان چار جو ن کو کیا جائے گا۔

بھارتی انتخابات: نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟

بھارت میں انتخابات: ایکس نے کئی سیاسی پوسٹس بلاک کر دیں

ووٹنگ کے لیے 55 لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا استعمال کیا جائے گا، حالانکہ ان مشینوں کے قابل اعتبار ہونے سے متعلق سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ الیکشن کے لیے ملک بھر میں دس لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔

پہلے مرحلے میں لوک سبھا کی 102 نشستوں کے لیے آج جمعے کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں
پہلے مرحلے میں لوک سبھا کی 102 نشستوں کے لیے آج جمعے کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیںتصویر: Reuters/R. De Chowdhuri

آج کن ریاستوں میں ووٹ ڈالے جا رہے ہیں؟

آج جمعہ 19 اپریل کو ریاست تامل ناڈو سے تمام 39 سیٹوں پر الیکشن کے لیے پولنگ ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ راجستھان، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اتر آکھنڈ، آسام، بہار، مغربی بنگال، اروناچل پردیش، منی پور، میگھالیہ، چھتیس گڑھ، میزورم، ناگالینڈ اور سکم، تری پورہ، انڈمان و نکوبار، پڈوچیری اور جموں و کشمیر میں بھی ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔

بھارت کے الیکشن اس مرتبہ زیادہ اہم کیوں؟

بھارت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ووٹرز ناراض کیوں؟

آج جن اہم امیدواروں کی قسمت ای وی ایم مشینوں میں بند ہو جائے گی، ان میں مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری بھی شامل ہیں۔ ناگپور، جہاں آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ہے، کے حلقے سے امیدوار گڈکری کو بعض سیاسی مبصرین مودی کا ممکنہ حریف سمجھتے ہیں۔

اتر پردیش کے حلقے مظفر نگر میں بھی آج ہی پولنگ ہو رہی ہے۔ یہ شہر سن 2013 کے مسلم مخالف فسادات کا مرکز تھا۔ ان فسادات کے نتیجے میں بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں وزیر اعظم مودی کی ہندو قوم پسند جماعت بی جے پی کو ہندو ووٹوں کو مستحکم کرنے میں کامیابی ملی تھی اور سن 2014 کے عام انتخابات میں اسے اس ریاست سے 80 قومی پارلیمانی سیٹوں میں سے 72 پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ بی جے پی نے 2019 کے عام انتخابات میں بھی بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔

جنوبی ریاست تامل ناڈو میں بی جے پی کو اب تک کامیابی نہیں مل سکی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود سن 2019 کے انتخابات میں وہ وہاں سے ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ اس مرتبہ وزیر اعظم مودی نے اس ریاست پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے وہاں کئی انتخابی جلسے کیے۔ بی جے پی کو امید ہے کہ وہ اس مرتبہ تامل ناڈو سے لوک سبھا کی کچھ نہ کچھ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

ایک شخص اپنی نابینا والدہ کو ووٹ ڈالنے میں مدد کررہا ہے
ایک شخص اپنی نابینا والدہ کو ووٹ ڈالنے میں مدد کررہا ہےتصویر: Getty Images/AFP/R. Beck

بھارتی انتخابات سے متعلق وہ حقائق، جنہیں جاننا ضروری ہے:

ان انتخابات کے دوران 2700 سے زائد سیاسی جماعتیں اور 8 ہزار سے زائد امیدوار اپنی قسمت آزمائیں گے۔

بھارتی الیکشن قوانین کے مطابق الیکشن کمیشن کو ہر اس جگہ پولنگ بوتھ لازمی بنانا ہوتا ہے، جہاں رجسٹرڈ ووٹر موجود ہوتے ہیں۔ گجرات کے گیر کے جنگلوں میں واقع بنیج میں صرف ایک ووٹر کے لیے ایک پولنگ بوتھ بنایا گیا ہے۔

قوانین کی اسی مجبوری کے تحت بھارتی الیکشن کمیشن کے عملے کو پولنگ اسٹیشنوں یا کسی بھی پولنگ بوتھ تک پہنچنے کے لیے، پیدل، اونٹوں، گدھا گاڑیوں، بیلوں، ٹرینوں، بسوں، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے علاوہ کشتیوں پر بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔

بھارت کا بلند ترین پولنگ بوتھ ہماچل پردیش میں سپتی وادی کے تاشی گنگ قصبہ میں بنایا گیا ہے۔ یہ جگہ 15256 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

ریاست اتر پردیش میں ساتوں مرحلے میں ووٹنگ ہو گی کیوں کہ یہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے جس کی آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے۔

اس برس ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم کے عہدے کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں۔ دوسری جانب بی جے پی کے مدمقابل انڈین نیشنل کانگریس ہے، جس نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر گزشتہ برس ایک وسیع تر سیاسی اتحاد تشکیل دیا تھا۔ اس اتحاد کا نام 'انڈیا‘ رکھا گیا ہے۔ زیادہ تر سیاسی مبصرین کے مطابق نریندر مودی تیسری مدت کے لیے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔